اسرائیل کی 7 برس پرانی خفیہ دستاویز میں حماس جنگ کے حیران کن انکشافات
اسرائیلی اخبار کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم نتین یاہو کو 7 برس قبل خفیہ دستاویز میں حماس کے ممکنہ حملے سے خبردار کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق 2016 میں اس وقت کے وزیر دفاع ایویگڈور لائبرمین نے 11 صفحات پر مشتمل دستاویز کا مسودہ تیار کیا تھا جس میں حماس کے سرحدی راستے سے داخلے، جنوبی اسرائیل میں لوگوں کو زیر کرنے اور یرغمال بنانے کے منصوبوں کے حوالے سے خبردار کیا گیا تھا۔
اگرچہ طویل عرصے سے اسرائیل کو غزہ یا شمال میں حزب اللہ سے ایسے حملوں کا خدشہ تھا، لیکن 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کی جانب سے کی گئی کارروائی واضح کر دیا کہ انتباہ کے باوجود انہیں روکنے کے لیے مناسب تیاری نہیں کی گئی۔
دستاویز جسے ”ٹاپ سیکریٹ“ (انتہائی خفیہ) قرار دیا گیا ہے، اس میں لائبرمین نے لکھا، ’حماس ایک بڑی تعداد میں تربیت یافتہ افواج (مثال کے طور پر نقبہ کمانڈوز) بھیج کر اسرائیلیوں کو یرغمال بنانے کی کوشش کر کے تنازعے کو اسرائیلی سرزمین کے اندر تک لے جانا چاہتی ہے۔ جس سے لوگوں کو جسمانی نقصان کے علاوہ اسرائیل کے شہریوں کے حوصلے اور جذبات کو بھی نمایاں نقصان پہنچے گا۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ دستاویز وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس وقت کے آئی ڈی ایف چیف آف اسٹاف گیڈی آئزن کوٹ دونوں کو پیش کی گئی تھی جس میں حماس کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے اس پر اچانک حملہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
لائبرمین جوکہ اسرائیل بیتینو پارٹی کے سربراہ ہیں، انہوں نے فوج پر زور دیا کہ ’حماس کے ساتھ اگلا تنازعہ آخری ہوگا‘۔
لائبرمین نے خبردار کیا کہ 2017 کے بعد اس طرح کے حملے میں تاخیر حماس کو 2014 کی جنگ کے بعد اپنے راکٹس اور زمینی افواج کو کافی حد تک تیار کرنے کا موقع دے گی۔
لائبرمین نے ستمبر 2016 میں قطر میں ہونے والی ایک میٹنگ میں حماس کے سیاسی بیورو کی طرف سے کیے گئے فیصلوں کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ 2022 تک اسرائیل کا صفایا کرنے کے مقصد سے حملہ کرنے سے پہلے حماس کو دوبارہ منظم ہونے کے لیے وقت درکار تھا۔
دستاویز میں حماس کے 40,000 جنگجوؤں کی ایک فورس بنانے، سمندر اور زمین سے اسرائیل پر حملہ کرنے، ڈرون ٹیکنالوجیز حاصل کرنے اور الیکٹرانک جنگی جوابی اقدامات کے استعمال کی صلاحیتوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
لائبرمین نے غزہ کے گرد حفاظتی رکاوٹ پر زیادہ انحصار کے خلاف بھی خبردار کیا۔
انہوں نے لکھا، ’غزہ کے ارد گرد مختلف قسم کے نظاموں اور صلاحیتوں کے ساتھ جو دفاعی رکاوٹ تعمیر کی جا رہی ہے وہ درحقیقت غزہ کا مقابلہ کرنے کے لیے موجودہ سیکیورٹی حکمت عملی کا ایک اہم جز ہے، لیکن یہ اپنے آپ میں کوئی حکمت عملی نہیں بنا سکتا۔ جدید تاریخ اور ماضی کی نظیروںمیگئینوٹ لائن، مینرہیم لائن اور بار لیو لائن نے ثابت کیا ہے کہ باڑ اور قلعہ بندی جنگ کو نہیں روکتی اور امن و سلامتی کی ضمانت نہیں بنتی‘۔
لائبرمین نے خبردار کیا کہ ’2017 کے وسط تک اسرائیلی اقدام شروع کرنے میں ناکامی ایک سنگین غلطی ہوگی جو اسرائیل کو ایک سنگین اسٹریٹجک مقام پر لے جا سکتی ہے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’مجھے یقین ہے حماس کی جانب سے اس طرح کے حملے کے نتائج دور رس ہوں گے اور کچھ طریقوں سے یوم کپور جنگ کے نتائج سے بھی بدتر ہوں گے۔‘
سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد سے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ انہیں سیکورٹی سربراہان نے حماس کے آنے والے حملے کے بارے میں خبردار نہیں کیا تھا، اور دعویٰ کیا کہ تمام سیکورٹی سربراہوں نے انہیں مسلسل یقین دہانی کرائی ہے کہ حماس کو روک دیا گیا ہے۔
انہوں نے اتوار کو ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’جنگ کے بعد سب کو جواب دینا پڑے گا، جس میں میں بھی شامل ہوں‘۔
لائبرمین دستاویز اسرائیل کی فوج، انٹیلی جنس اور سیاسی قیادت کی بڑے پیمانے پر ناکامی کے ثبوتوں میں اضافہ کرتی ہیں۔
پیر کو نیویارک ٹائمز کی ناکامیوں کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ فوج کے 8200 سگنل انٹیلی جنس یونٹ نے ایک سال پہلے غزہ میں حماس کے کارندوں کے ہینڈ ہیلڈ ریڈیو کو سننا بند کر دیا تھا کیونکہ اسے ”کوشش کی بربادی“ کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ انٹیلی جنس کی ناکامیوں کے بارے میں ایک وسیع رپورٹ میں اخبار نے یہ بھی کہا کہ امریکی جاسوسی ایجنسیوں نے حالیہ برسوں میں حماس کے بارے میں معلومات کو اکٹھا کرنا بند کر دیا تھا، یہ مانتے ہوئے کہ اسرائیل کو دہشت گرد گروپ سے خطرہ موجود تھا۔