نیب ترمیم کیس؛سپریم کورٹ نے دو ایک سے فیصلہ سنادیا
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ سنادیا۔سپریم کورٹ نے دو ایک سے فیصلہ سنایا دیا،
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بنچ میں شامل تھے۔
سپریم کورٹ نے چیرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابل سماعت قرار دیدیا۔عوامی عہدے رکھنے والے سیاستدانوں کے خلاف ریفرنسز بحال ہوگئے۔
فیصلے کے مطابق سروس آف پاکستان سے متعلق نیب شق بحال کردیا گیا۔سپریم کورٹ نے چیرمین پی ٹی آئی کی درخواستیں جزوی طور منظور کر لی۔
عدالتی فیصلے میں کہاگیا ہےکہ ، 500 ملین کی حد تک کے ریفرنس نیب دائرہ کار سے خارج قرار دینے کی شق کالعدم قرار دی جاتی ہے تاہم سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شقیں برقرار رکھی جاتی ہیں
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں، عوامی عہدوں کے ریفرنس ختم ہونے سے متعلق نیب ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، نیب ترامیم کے سیکشن 10 اور سیکشن14 کی پہلی ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ترامیم کے تحت دیئے گئے احتساب عدالتوں کے ریلیف کالعدم قرار دے دئیے گئے۔کم سے کم 50کروڑ کی شرط والی شق کالعدم قرار دئیے گئے۔جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا۔فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا گیا
عدالتی فیصلے کے مطابق آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں کرپشن کا بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کی شق بھی کالعدم قراردیدی۔بے نامی کی نئی تعریف سے متعلق نیب ترمیم بھی کالعدم قرار دیدیا۔
فیصلے سے اسحاق ڈار کا کیس بھی دوبارہ کھلنے کا امکان ہے۔شاہد خاقان عباسی کا کیس واپس احتساب عدالت کو منتقل ہوگا۔نواز شریف، زرداری اور یوسف رضا گیلانی کا توشہ خانہ کیس واپس احتساب عدالت کو منتقل ہوگا
سپریم کورٹ نے سات دن میں مقدمات کا ریکارڈ واپس عدالتوں کو منتقل کرنے کا حکم دیدیا۔نیب ترامیم کالعدم ہونے سے نوازشریف کیخلاف توشہ خانہ کیس بحال ہوگیا۔
آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کیخلاف بھی توشہ خانہ کیس بحال ہوگا۔اس کے علاوہ آصف زرداری کیخلاف پنک ریزیڈنسی ریفرنس بھی بحال ہوگیا۔راجہ پرویز اشرف، عبدالغنی مجید اور انور مجید کے مقدمات بھی بحال ہوگئے۔
نیب ترامیم 2022 کو چئیرمین پی ٹی آئی نے چیلنج کیا تھا۔نیب ترامیم کیس پر 55 سماعتیں ہوئیں۔سپریم کورٹ نے 5 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی نمائندگی خواجہ حارث نے کی تھی۔حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے درخواست کی مخالفت کی تھی۔ اٹارنی جنرل نے بھی درخواست کی مخالفت کی تھی