ریکارڈ سسٹم لاسز، آر ایل این جی کی قیمتوں میں اضافہ

سسٹم خسارے میں ریکارڈ 14.4 فیصد اضافے کے درمیان بلند عالمی قیمتوں کی وجہ سے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے دو سوئی گیس کمپنیوں کے لیے ری گیسیفائیڈ مائع قدرتی گیس (آر ایل این جی) کی قیمت فروخت میں 3 فیصد اضافے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا جس کا اطلاق یکم ستمبر سے ہوگا۔
لاہور میں قائم سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے لیے آر ایل این جی کی فروخت کی قیمت ٹرانسمیشن مرحلے پر 2.76 فیصد اضافے سے 11.86 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) اور تقسیم کے مرحلے پر 2.79 فیصد اضافے کے ساتھ 12.84 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کردی گئی ہے۔
اسی طرح کراچی میں قائم سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کی قیمت ٹرانسمیشن مرحلے پر 3.07 فیصد اضافے سے 11.47 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اور تقسیم کے مرحلے پر 3.08 فیصد سے 13.36 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہوگئی ہے، اگست کے مہینے میں گیس کی قیمت فروخت کے مقابلے میں ستمبر کے لیے قیمتوں میں یہ اضافہ کیا گیا ہے۔
ایس این جی پی ایل ٹرانسمیشن کے لیے رقم کے لحاظ سے مجموعی اضافہ 0.32 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو اور تقسیمی مرحلے کے لیے 0.35 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو ہے اور ایس ایس جی سی ایل ٹرانسمیشن کی قیمتوں میں 0.34 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو اور تقسیم کے لیے 0.4 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ ہوا ہے۔
اوگرا کی ٹیرف شیٹ کے مطابق ایس ایس جی سی ایل کے مقابلے میں ایس این جی پی ایل کے بڑے ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک اور بندرگاہوں سے زیادہ فاصلے کے باوجود اس کے لیے آر ایل این جی کی قیمتوں میں کمی کی بڑی وجہ ایس ایس جی سی ایل کی نمایاں طور پر زیادہ سسٹم لاسسز ہیں۔
اوگرا نے کہا کہ ایس ایس جی سی ایل کے ڈسٹری بیوشن سسٹم کے لاسسز 14.36 فیصد رہے جب کہ اس کے مقابلے میں ایس این جی پی ایل کے لاسز8.23 فیصد رہے۔
اس کے برعکس ایس ایس جی سی ایل کے ٹرانسمیشن لاسز 0.12 رہے جب کہ ایس این جی پی ایل کے ٹرانسمیشن لاسز 0.38 فیصد رہے۔
اوگرا نے کہا کہ اس نے قیمتوں میں اضافہ وفاقی حکومت کی جانب سے وزارت توانائی کے ذریعے جاری کردہ پالیسی گائیڈ لائنز کے مطابق کیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال مئی میں ایل این جی کی قیمت 22-24 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی تھی جس کی وجہ اس وقت کی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی جانب سے توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے اسپاٹ کارگوس کی خریداری تھی۔
اس کے بعد سے اسپاٹ ٹینڈرز کے ذریعے مزید گیس درآمد کرنے کے لیے کی گئی متعدد کوشیشیں روس یوکرین جنگ کے بعد سپلائی میں سختی اور عالمی مارکیٹ میں ریکارڈ اضافی قیمتوں کی وجہ سے بے سود رہی تھیں، اس طرح ستمبر میں تمام 9 کارگوز طویل مدتی معاہدوں کے تحت پاکستان کو دستیاب ہیں جن میں سے سوائے ایک کے تمام کارگوز قطر سے آئیں گے

Latest Notifications

Create Post