کسٹم ڈیوٹی ادا کیے بغیر اشیا کی فروخت کیسے ہو رہی ہے؟
پاکستان میں موبائل فون صارفین کو کافی عرصے سے ایسے ایس ایم ایس تواتر سے موصول ہو رہے ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے کہ ’اگر آپ نان کسٹم پیڈ اشیا خریدنا چاہتے ہیں تو دیے گئے نمبر پر رابطہ کریں یا پھر واٹس ایپ گروپ کو جوائن کریں۔‘
صرف یہی نہیں بلکہ کئی لوگ گلی محلوں میں اب نان کسٹم پیڈ اشیا کی فروخت کا کام کر رہے ہیں۔
صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سے تعلق رکھنے والے محمد ثاقب (فرضی نام، انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی) آج کل اسی طرح کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
وہ پیشے کے لحاظ سے حجام ہیں تاہم وہ ترکی کا شہد اور جاپان سے آئے ہوئے صابن اپنے گاہکوں کو فروخت کرتے ہیں۔
’آج کل مہنگائی کا دور ہے اور ہم کچھ دوستوں نے مل کر یہ کام شروع کیا ہے۔ میرا ایک دوست ہے اور وہ کسٹم کے معاملات کی کافی معلومات رکھتا ہے۔ وہ کسٹم میں نیلامی سے چیزیں خریدتا ہے اور پھر ہم اسے فروخت کرتے ہیں۔ جو چیز ایمازون پر 15 ڈالر میں ہوتی ہے وہ ہم سستی دیتے ہیں تو لوگ خرید لیتے ہیں۔ ہمیں ترکی سے آیا شہد ملا تھا اور وہ لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ باہر کی چیز کی کوالٹی ہی بہت ہوتی ہے۔‘
ثاقب اور ان کے دوست گزشتہ چھ ماہ سے ایسی اشیا فروخت کر رہے ہیں جو ان کے مطابق وہ براہ راست کسٹم سے نیلامی کے وقت قانونی طور پر خریدتے ہیں اور بعد ازاں اس کی مارکیٹنگ بھی خود ہی کرتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ابھی وہ بہت ہی محدود طریقے سے یہ کام کر رہے ہیں۔ اس کی پبلسٹی کے لیے ایس ایم ایس سروس یا سوشل میڈیا کو استعمال نہیں کرتے۔
سوشل میڈیا پر ان دنوں بہت سی ایسے اشتہار بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سامان کی لاٹ خریدی گئی ہے اور سارا سامان امپورٹڈ اور سستا ہے۔
صارفین فیس بک پر براہ راست آرڈر بھی دے رہے ہوتے ہیں اور قیمتوں سے متعلق بھی پوچھ رہے ہوتے ہیں۔
فیس بک پر امپورٹڈ سامان بیچنے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق پشاور اور خیبرپختونخواہ کے دیگر علاقوں سے ہے۔
لاہور ہی سے تعلق رکھنے والے ایک اور تاجر محمد سالک بتاتے ہیں کہ وہ کوسٹل گارڈز کی نیلامی سے کنٹینر خریدتے ہیں جن میں زیادہ تر استعمال شدہ سامان ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا ’میں کئی برسوں سے یہ کام کر رہا ہوں۔ کوسٹل گارڈز کی نیلامی سے وزن کے حساب سے قیمتیں طے ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ایک کنٹینر کروڑ روپے تک کا بھی ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر ہم ان میں سے نکلنے والی چیزوں کو ایسے دکانداروں کو دیتے ہیں جو اس طرح کا سامان فروخت کرتے ہیں۔‘
نان کسٹم پیڈ کاروبار کیا ہے؟
اس طرح کی مختلف کہانیوں اور نان کسٹم پیڈ اشیا کی تشہیر سے متعلق بات کرنے کرنے کے لیے جب کسٹم حکام سے رابطہ کیا گیا تو ایڈیشنل کلیکٹر کسٹم محمد رضوان نے بتایا ’یہ دو تین الگ الگ چیزیں ہیں۔ جو لوگ ایس ایم ایس کے ذریعے نان کسٹم پیڈ اشیا کی تشہیر کر رہے ہیں وہ بالکل جعلی کلیم ہے۔ ہم نے ایسے 10 افراد کو پچھلے کچھ عرصے میں گرفتار کیا ہے جو یہ ایس ایم ایس کمپین چلا رہے تھے۔ ان میں سے آٹھ تو ویسے ہی لوگوں کو دھوکا دے رہے تھے جبکہ دو افراد کے پاس نان کسٹم پیڈ اشیا کے دو گودام تھے جن کو ضبط کر لیا گیا ہے۔‘
محمد رضوان نے بتایا کہ ’زیادہ تر ایس ایم ایس تشہیری مہم لوگوں کو جھانسہ دینے اور ان کی معلومات حاصل کرنے کے مقاصد کے لیے ہے تاکہ ان کے پاس لوگوں کی معلومات آ جائیں اور وہ اس حساب سے ان کو دھوکا دے سکیں، وہ سرے سے ایسا کوئی کاروبار کر ہی نہیں رہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو سمگلنگ کا سامان بیچتے ہیں۔ ان کے گرد ہم نے ہمیشہ گھیرا تنگ رکھا ہکسٹم سامان کی نیلامی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ایڈیشنل کلیکٹر کسٹم کا کہنا تھا کہ ’قانون کے مطابق اگر کوئی شخص اپنا سامان کسٹم ادا کر کے بندرگاہ سے یا ڈرائی پورٹس سے کلیئر نہیں کرواتا تو ایک خاص وقت کے بعد اس کا سامان ضبط ہو جاتا ہے اور اس کے بعد اس سامان کی باقاعدہ قانونی طور پر نیلامی کی جاتی ہے۔ جس میں تاجر حصہ لیتے ہیں۔‘
’اس سے قومی خزانے کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوتا ہے۔ نیلامی کے لیے باقاعدہ اشتہار دیا جاتا ہے۔ اور اس سامان کو جو کہ باقاعدہ قانونی طریقے سے خریدا جائے، اسے کوئی نان کسٹم پیڈ بنا کر فروخت کرے تو اس سے وہ نان کسٹم پیڈ نہیں ہو جاتا۔‘
انہوں نے بتایا ’یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ مارکیٹ سے قدرے سستا ہو لیکن اس پر کسٹم پورا ادا ہوتا ہے۔ کسٹم کی رقم منہا کر کے بولی لگائی جاتی ہے۔‘ے۔‘