صدر استعفی دیں گے یا آفس میں رہیں گے اس کا علم نہیں، نگران وزیر اطلاعات
نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی استعفیٰ دیں گے یا آفس میں رہیں گے اس بارے علم نہیں ہے۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے مسوّدوں پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے دستخطوں کے معاملے پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی اور نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم کا کہنا تھا کہ صدرمملکت کے پاس فیصلے کیلئے دس دن کا وقت ہوتا ہے، انہوں نے بلز پر دستخط کئے نہ ہی مشاہدات درج کرکے واپس بھیجے، آج سے پہلے بغیر مشاہدات کوئی بل واپس بھیجنے کی مثال نہیں ملتی۔
نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ صدر کو بل پر اعتراضات لگا کر واپس بھیجنا چاہیے تھا، آئین میں آرٹیکل 75 موجود ہے جسے سب پڑھ سکتے ہیں ، صدر نے بلز کی مدت ختم ہونے کے بعد ذاتی اکاؤنٹ سے وضاحت دینا پسند کیا، صدر ریاست کے سربراہ ہیں ان کی بہت تعظیم ہے، دوران صدارت ان کے خلاف کوئی کارروائی یا تفتیش نہیں ہوسکتی، کسی صورت نہیں چاہیں گے ایوان صدر جا کر ریکارڈ قبضے میں لیں۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ہمارے بات کرنے کا مقصد تحقیقات نہیں وضاحت پیش کرنا ہے، ٹویٹ ابہام پیدا کرنے کی کوشش لگتی ہے، عملہ غفلت کا مرتکب ہوا تو ان کو کیسے ڈسپلن کرنا چاہیے یہ میرا اختیار نہیں، میرےعلم میں نہیں صدر کس سے معافی مانگ رہے ہیں، صدر کے ٹویٹ میں 2 بلز پر بات کی گئی ہے، کوئی ابہام تھا تو وزارت قانون کی پریس ریلیز کے بعد ختم ہو گیا۔
اس موقع پر نگران وزیر قانون احمد عرفان اسلم کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل 27جولائی کوسینیٹ نے پاس کیا جبکہ 31 جولائی کو قومی اسمبلی نے پاس کر کے ایوان صدر بھیجا اور 2 اگست کو ایوان صدر کو موصول ہوا، دوسری جانب قومی اسمبلی نے آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل یکم اگست کو پاس کر کےسینیٹ بھیجا جسے سینیٹ نے کچھ آبزرویشنز کیساتھ قومی اسمبلی کو بھیجا، بل قومی اسمبلی نے 7 اگست کو پاس کیا اور صدر کو 8 اگست کو موصول ہوا۔
عرفان اسلم کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 75 کے تحت کوئی بل صدر کو بھیجا جاتا ہے تو انکے پاس 2اختیار ہیں، ایک صدر مملکت بل پر رضامندی دیں تو وہ قانون بن جائےیا صدر کے پاس دوسرا آپشن بل پر اپنے تحفظات دینے کے حوالے سے ہے، آئین میں کوئی تیسرا اختیارنہیں، ان 2 آپشنز کے لیے صرف 10 روز ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت وفاق کے سربراہ ہیں، کئی مرتبہ صدر نے بہت سے قوانین پر یہ آپشن استعمال کئے، معاملے پر کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت نامناسب بات ہوگی ، صدر کا اسٹاف اگر بات کرے تو بہتر ہوگا، جمہور کا وجود قوانین کے بغیر ممکن نہیں ، اداروں کے خلا ف کسی شہری کی شکایت ہےتو عدالتیں موجود ہیں، سیاسی جماعت نےعدالت کا دروازہ کٹکٹھانے کا کہا ہے یہ ان کا آئینی حق ہے۔