آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل پردستخط نہیں کیے،صدرمملکت
صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ میں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل پردستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سےمتفق نہیں تھا۔
ٹویٹر پیغام میں ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اپنے عملے سےکہا بغیر دستخط شدہ بلز مقررہ وقت میں واپس کردیں تاکہ غیرمؤثر بنایاجاسکے. میں نے کئی بار تصدیق کی اور مجھے یقین دلایا گیا کہ بلز واپس جاچکے ہیں۔
صدرمملکت نے کہا کہ مجھے آج پتہ چلا میرا عملہ میری مرضی،حکم کیخلاف گیا، میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو قانون اس سے متاثرہوں گے۔ اللہ سب جانتا ہے وہ انشاءاللہ معاف کردے گا۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ
آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل کے مطابق کوئی شخص جو جان بوجھ کر امن عامہ کا مسئلہ پیدا کرتا ہے، ریاست کے خلاف کام کرتا ہے، ممنوعہ جگہ پر حملہ کرتا یا نقصان پہنچاتا ہے جس کا مقصد براہ راست یا بالواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچانا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہوگا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملزم کا ٹرائل خصوصی عدالت میں ہو گا اور خصوصی عدالت 30 دن کے اندر سماعت مکمل کرکے فیصلہ کرے گی۔
آرمی ایکٹ
آرمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفے یا برطرفی کے دو سال بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا جبکہ حساس ڈیوٹی پر تعینات فوجی اہلکار یا افسر ملازمت ختم ہونے کے 5 سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔
آرمی ترمیمی ایکٹ کے مطابق خلاف ورزی کرنے والے اہلکار کو دو سال تک قید با مشقت کی سزا ہو گی جبکہ حاضر سروس یا ریٹارڈ فوجی اہلکار ڈیجیٹل، الیکٹرانک یا سوشل میڈیا پر کوئی ایسی بات نہیں کرنے گا جس کا مقصد فوج کو اسکینڈلائز کرنا یا اس کی تضحیک کرنا ہو، جرم کرنے والے کے خلاف کارروائی آرمی ایکٹ کے تحت ہو گی، سزا الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت ہو گی۔
آرمی ایکٹ کے تحت کوئی حاضر سروس یا ریٹائرڈ اہلکار اگر فوج کو بدنام کرے یا اس کےخلاف نفرت انگیزی پھیلائے گا اسے آرمی ایکٹ کے تحت دو سال تک قید اور جرمانہ ہو گا۔
متن کے مطابق سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات جو پاکستان اور افواج کی سکیورٹی اور مفاد سے متعلق ہو افشا کرے گا اسے 5 سال قید بامشقت تک کی سزا ہو سکے گی، البتہ آرمی چیف یا بااختیار افسر کی جانب سے منظوری کے بعد غیر مجاز معلومات دینے پر سزا نہیں ہوگی۔