سی پیک کی توسیع سے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن
ملک کوئی بھی ہو اس ملک کی ترقی کے لیے معیشت کی بنیاد کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے، لیکن افسوس کی بات ہے پاکستان میں آزادی کے بعد ا س شعبے کو مستحکم بنانے کے بجائے صرف غیر ملکی قر ضوں ، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف پر ہی توجہ مرکوز رکھی گئی، یہی وجہ ہے کہ ملک کا قرض ہر پاکستانی کی قمر توڑ رہا ہے پاکستان کا شمار دنیا کے ان خوش نصیب ممالک میں ہوتا ہے جسے اللہ تعالی نے بہت نوازا ہے لیکن اگر اس نے معاشی استحکام پر توجہ دی ہوتی تو آج ہم بہت خوشحال ہوتے۔ وہ آگے بھی ہو سکتے تھے لیکن دوسری طرف سے دیکھیں تو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کاوشوں کے باعث پاکستان آج ایٹمی طاقت ہے جس کی وجہ سے روایتی حریف بھارت اب ایک آواز اٹھانے سے خوفزدہ ہے۔
پاکستان کی طرف نظریں اپنے مضبوط دوست چین کے ساتھ سی پیک منصوبے کا آغاز کرنے کے بعد، چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران سی پیک کی تجویز پیش کی، جس کا پاکستانی حکومت کی جانب سے فوری طور پر مثبت جواب ملا۔ بنیادی طور پر، سی پیک ایک مہمان نوازی کا منصوبہ ہے جس کی بنیاد چین اور پاکستان کے درمیان تاریخی تعاون کے داؤ پر ہے۔ اس راہداری کے ذرائع سڑک، ریل، بجلی اور اقتصادی تعاون ہیں جو دونوں ممالک کی ترقی اور تعمیر کو فروغ دیتے ہیں۔
یہ منصوبہ مختلف طبقات کے درمیان تجارتی، اقتصادی اور ثقافتی تبادلے کو فروغ دیتا ہے۔ چین کے وسیع تعمیراتی تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے تعمیراتی منصوبوں پر اضافی زور دیا جا رہا ہے سی پیک چینل کی توسیع سے پاکستان کے علاقے بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ یہ منصوبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، تعمیراتی منصوبوں اور پاور لینڈ کی توسیع کے ذرائع متعارف کروا کر پاکستان کی معیشت کی مضبوطی میں بھی کردار ادا کر رہا ہے۔
تاہم، سی پیک منصوبوں کے ساتھ، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تنظیمی اور مالی مسائل ہیں جو اس کی پیشرفت میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مسائل میں تبدیلی، امن اور بہتری اس منصوبے کو کامیاب بنانے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ سی پیک کو منفی تعلقات کا شکار سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے بہت سے مثبت تعلقات بھی ہیں جو دونوں ممالک کے لیے موثر تعاون کا گیٹ وے ہیں۔ اس منصوبے کی کامیابی کے لیے دونوں ممالک کو مشترکہ مفادات کی جانب پیش رفت بڑھانے کی ضرورت ہے۔
جولائی 2013 میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ چین کے دوران سی پیک پر کام شروع کرنے کے لیے ایک ایم او یو پر دستخط کیے گئے تھے۔ اب تک اس بڑے اور اہم منصوبے پر موثر انداز میں عملدرآمد جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک کی تکمیل سے پاکستان کو جو معاشی استحکام ملے گا وہ بھارت جیسے ازلی دشمن کو ہضم نہیں ہو سکتا۔ سی پیک چین اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ سی پیک سے پاکستانی عوام کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے، اس نے تعلیمی اور طبی منصوبوں کے ذریعے مقامی لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان، چائنا فرینڈ شپ پرائمری سکول، گوادر، گوادر ہسپتال، گوادر ووکیشنل کالج، اور واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ جیسے منصوبے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیے گئے ہیں، انفراسٹرکچر کی تعمیر سے سیاحت کے شعبے میں ترقی ہوئی ہے، مجموعی طور پر زراعت کے شعبے میں نئے منصوبے شروع ہو رہے ہیں۔ ملک کی زرعی پیداوار میں مثبت نتائج کی توقع ہے۔
نئے متبادل راستے سے شندور، گلگت، چترال میں تجارتی سرگرمیوں، ترقی اور سیاحت کے فروغ میں مدد ملے گی، قومی اور بین الاقوامی سیاحوں کو قدرتی علاقوں کا دورہ کرنے میں بھی مدد ملے گی، جس سے پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی میں مدد ملے گی۔ سی پیک 2030 میں مکمل ہو جائے گا، دونوں ممالک مالیاتی خدمات، سائنس اور ٹیکنالوجی، سیاحت، تعلیم، غربت کے خاتمے اور شہر کی منصوبہ بندی جیسے شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے مواقع تلاش کریں گے۔ منصوبوں کی تعمیر سے ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے، پاکستان میں پہلے سے موجود سڑکوں کے نیٹ ورک اور سائنسی اصولوں پر مبنی منصوبہ بندی کو ترجیحی بنیادوں پر استعمال کرتے ہوئے نارتھ ساؤتھ کوریڈور کی راہ ہموار کرنے میں مدد ملی۔ صنعتی شعبے میں چین کو ٹیکنالوجی، فنانسنگ اور صنعتی صلاحیتوں میں امتیاز حاصل ہے جب کہ پاکستان اپنے وسائل، افرادی قوت اور منڈی کے سازگار حالات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ منصوبے روزگار اور ٹیکس کی وصولی کو فروغ دینے، صوبائی سطح پر زمینی رابطے کو مضبوط بنانے، معاشی ترقی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں مدد کی۔ لاکھوں پاکستانی سی پیک کے مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔
رشکئی میں پہلی چینی سٹیل مل کی تعمیر جاری ہے، سی پیک ہماری معاشی ترقی کا ستون اور پاک چین لازوال دوستی کی عظیم مثال ہے۔ پاک فوج اس منصوبے کی تکمیل کے لیے حکومت پاکستان کو قابل قدر تعاون فراہم کر رہی ہے۔ منصوبے میں بلوچستان اور کے پی کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے جس سے ان دونوں صوبوں کے عوام کی حساس محرومیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی، اس وقت بھارت، افغانستان سمیت کئی طاقتور ممالک اس منصوبے کو ختم کرنے کے لیے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس کو روکنے کے لیے ہمیں اپنے تمام اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا۔ حکومت کو بھی ہر ماہ اپوزیشن کو اعتماد میں لینے کی پالیسی بنانا ہوگی۔ یہ منصوبہ اب دنیا کے دیگر ممالک کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے اور وہ بھی اس میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں، اس لیے پاکستان سی پیک کے حوالے سے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اس وقت ملک میں اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت اور اہمیت ہے، جس پر سب کو غور کرنا چاہیے، تاکہ ہماری آنے والی نسل غیر ملکی قرضوں کے بوجھ سے آزاد ہو سکے۔
مختصر بات کروں میں تو سی پیک ایک اہم اقتصادی راہداری ہے جو چین اور پاکستان کے درمیان تعاون کو بہتر بنانے کیلئے بنایا گیا ہے۔ یہ منصوبہ دونوں ممالک کی ترقی اور تعمیر کے لئے اہم موقع فراہم کرتا ہے۔
رابعہ کبیر احمد صحافت کی طالبہ ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کر رہی ہیں