امریکی ادارے کا جوہری سلامتی انڈیکس جاری ، پاکستان، بھارت سے آگے
امریکی ادارے کی جانب سے اپنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جوہری سلامتی انڈیکس میں پاکستان بھارت ، ایران سے آگے ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق عالمی جوہری سلامتی کا جائزہ لینے والے ایک بین الاقوامی ادارے نے پرخطر مواد کی دیکھ بھال کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان اس ضمن میں بھارت، ایران، اور جنوبی کوریا سے کئی درجے بہتر پوزیشن رکھتا ہے۔ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے پاکستان نے گزشتہ جائزے سے اب تک 3 مزید پوائنٹس حاصل کیے ہیں اور یہ 22 ریاستوں کی فہرست میں 19ویں نمبر پر ہے۔
نیوکلیئر تھریٹ انیشی ایٹو نے ممالک کی جوہری سلامتی کے امکانات اور کوششوں کو ایک معیار اور اعشاریوں کے سیٹ پر مبنی پیمانے پر جانچتا ہے۔ جانچ پڑتال کے پیمانے میں جوہری مواد اور سہولیات کے تحفظ، عالمی طریقوں اور معاہدات کی پاسداری، جوہری سلامتی کے ریگولیٹری فریم ورک، جوہری ہتھیاروں اور مواد تک غیر مجاز رسائی کو روکنے کے لیے بہترین طریقوں پر عملدرآمد جیسے عوامل شامل ہیں۔
واشنگٹن میں قائم غیر منافع بخش ادارہ، نیوکلیئر تھریٹ انیشی ایٹو اس انڈیکس کو سنبھالتا ہے جو اس بات کا محتاط ریکارڈ رکھتا ہے کہ ممالک جوہری مواد کو کیسے ہینڈل کرتے ہیں۔
این ٹی آئی انڈیکس نے پاکستان کا مجموعی سکور، 49، ایک گوشوارے کی شکل میں ظاہر کیا جو بھارت کے 40، ایران کے 29، اور جنوبی کوریا کے 18 سے بہتر ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جوہری سہولیات کی حفاظت کے اعتبار سے پاکستان، روس اور اسرائیل کے ساتھ 32 ویں درجے پر ہے اور 47 ممالک کی فہرست میں بھارت، ایران، میکسیکو، جنوبی افریقہ، اور دیگر کئی ممالک سے اوپر ہے۔
تاہم انڈیکس نے عالمی جوہری تحفظ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے خراب قرار دیتے ہوئے کہا کہ جوہری سلامتی کے متعلق کمزور ہوتی ترقی کے بارے میں کئی سال رپورٹ کرنے کے بعد این ٹی آئی جوہری سلامتی انڈیکس کو 2023ء میں پہلی مرتبہ پتا چلا کہ ایسے درجنوں ممالک اور علاقے جہاں جوہری مواد اور سہولیات کو ہتھیاروں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، وہاں جوہری سلامتی کے حالات انحطاط پذیر ہیں۔ پاکستان سمیت کئی ممالک ہتھیاروں کا درجہ رکھنے والے مواد کے ذخائر میں اضافہ کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 8 ممالک - فرانس، بھارت، ایران، جنوبی کوریا، پاکستان، روس، اور برطانیہ نے ایسے جوہری مواد کے ذخائر میں اضافہ کیا ہے جو ہتھیاروں کی صورت میں استعمال ہوسکتے ہیں۔ کچھ جگہ تو یہ اضافہ سالانہ ہزاروں کلوگرام تک جا پہنچتا ہے۔ اس اضافے کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں میں کمی لانے اور خاتمے کی کوششیں سبوتاژ ہوتی ہیں اور چوری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔