پی ٹی آئی اور پی پی نے آئی ایم ایف معاہدہ کی حمایت کر دی
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈز کے درمیان 3 ارب ڈالر کا سٹینڈ بائی معاہدہ ہونے کے بعد آئی ایم ایف کی ملک کی سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں جاری ہیں، اسی دوران پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی نے معاہدے کی حمایت کر دی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان تین ارب ڈالر کا اسٹاف لیول کا اسٹینڈ بائی معاہدہ طے پا گیا ہے ، اس معاہدے کی منظوری رواں ماہ ہونی متوقع ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے چند روز قبل ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 12 جولائی کو پاکستان کو قسط مل جائے گی۔
آئی ایم ایف حکام کی پیپلز پارٹی قائدین سے ملاقات
اس معاہدے کی منظوری سے قبل آئی ایم ایف کے وفد نے پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد سے ملاقات کی، ملاقات کرنے والوں میں پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر اور سلیم مانڈوی والا شامل تھے۔ اس دوران معاہدے سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے وسیع تر قومی مفاد میں نئے قرض پروگرام کی حمایت کی یقین دہانی کروا دی اور اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر عمل درآمد پر اتفاق بھی کیا۔
ایستر پیریز روئز
اس سے قبل ایستر پیریز روئز نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کا عملہ جن سیاسی جماعتوں سے ملاقات کررہا ہے اُن میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کے نمائندے شامل ہیں۔ ملاقاتوں کا مقصد نئے قرض پروگرام کے تحت پالیسیوں پر عملدراامد کی یقین دہانی حاصل کرنا ہے۔ قومی انتخابات سے پہلے پروگرام سے متعلق کلیدی مقاصد کے حصول کیلئے حمایت حاصل کی جا رہی ہے۔
آئی ایم ایف حکام کی چیئر مین پی ٹی آئی سے ملاقات
دوسری طرف سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما حماد اظہر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لکھا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم نے چیئرمین عمران خان سے زمان پارک میں ملاقات کی۔ ملاقات میں آئی ایم ایف کے کنٹری چیف نیتھن پورٹر نے واشنگٹن سے بذریعہ ویڈیو شرکت کی جبکہ ایستھر پیریز نے ون آن ون ملاقات کی۔
پی ٹی آئی کی ٹیم میں چیئرمین عمران خان، شاہ محمود قریشی، حماد اظہر، شوکت ترین، عمر ایوب خان، ڈاکٹر ثانیہ نشتر، شبلی فراز، تیمور جھگڑا اور مزمل اسلم شامل تھے۔ ملاقات ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نے لکھا کہ سٹاف لیول کے معاہدے کے ارد گرد بات چیت ہوئی جو آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کے ساتھ 9 ماہ کے 3 بلین امریکی ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے لیے طے کیا ہے اور اس تناظر میں ہم مجموعی مقاصد اور کلیدی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔