مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات سے کیسا بچا جائے؟
یونیسکو کا کہنا ہے کہ اس کی سفارشات پر عمل کر کے مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال سے بچا جاسکتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کے نئے ورژن اور مصنوعی ذہانت کے دیگر ذرائع کو غیر معمولی تشہیر ملنے سے ایک سال بعد اب حکومتیں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے تعاون سے اس طاقت ور ٹیکنالوجی کے استعمال کو باضابطہ بنانے کی متفقہ کوششیں شروع کر رہی ہیں۔
یونیسکو (اقوام متحدہ کا تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارہ) نے 2021 میں پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت کے اخلاقی اصولوں سے متعلق اپنی سفارشات تیار کی تھیں۔ اس وقت بیشتر دنیا کووڈ۔19 وبا کی صورت میں ایک اور عالمگیر خطرے سے نبرد آزما تھی۔ سفارشات کی 194 رکن ممالک نے منظوری دی جو سرکاری و نجی مالی وسائل کو معاشرے کی بہتری کے کاموں میں استعمال کرنے کے حوالے سے ٹھوس رہنمائی مہیا کرتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے بھی حال ہی میں حکومتوں، ٹیکنالوجی کی کمپنیوں اور طبی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کی 40 سے زیادہ سفارشات کی روشنی میں مصنوعی ذہانت پر اپنا ہدایت نامہ تیار کیا ہے۔
چلی ان پہلے ممالک میں شامل تھا جنہوں نے ناصرف ان سفارشات کی منظوری دی بلکہ ان پر عملدرآمد بھی کیا۔ اس حوالے سے ایسا طریقہ کار اختیار کیا گیا جس سے مصنوعی ذہانت کے با اخلاق اور ذمہ دارانہ طور سے استعمال کی ضمانت ملتی ہے۔
اسی لیے جب چیٹ جی پی ٹی مارکیٹ میں آئی اور ہم نے اس پر اعتراضات اٹھتے دیکھے تو اس ٹیکنالوجی سے لاحق مسائل پر قابو پانے کے لیے ہمارے پاس ماہرین کے تحقیقی مرکز اور حکومتی سطح پر صلاحیتیں پہلے سے موجود تھیں۔ ہماری کمپنیاں پہلے ہی مصنوعی ذہانت سے کام لے رہی تھیں اور ہمارے پاس اس کی ضابطہ کاری کے حوالے سے لاحق مسائل کا حل بھی تھا۔
گزشتہ ایک سال کے عرصہ میں مصنوعی ذہانت کا استعمال پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے۔ حکومتیں اور ادارے بھی اس ٹیکنالوجی سےکام لینے لگے ہیں۔ اسی لیے ہم نے ایک انتظامی حکم سے ملتا جلتا اقدام کیا جو بنیادی طور پر مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ استعمال سے متعلق ہدایات ہیں۔
لوگوں کو سماجی فوائد فراہم کرنے والے ادارے میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال ایک اہم مثال ہے۔ انہوں نے ایک ماڈل تیار کیا جو یہ اندازہ لگانے میں مدد دیتا ہے کہ کون سے لوگوں کی جانب سے ایسے فوائد مانگے جانے کا امکان بہت کم ہے جو ان کے حق دار ہیں۔
یونیسکو سفارشات سے ہمیں مصنوعی ذہانت اور اس سے متعلق ضابطوں کے بارے میں سوچ بچار میں مدد ملی۔ اس ضمن میں ہم سرکاری سطح پر ماہرین سے مشاورت کرتے رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ہم اس حوالے سے ایک مجوزہ قانون کانگریس میں پیش کرسکیں گے۔
اس بارے میں بھی سوچ بچار جاری ہے کہ لوگوں کو مصنوعی ذہانت کے حوالے کیسے تربیت دی جاسکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ پروگرامنگ کی تربیت ہو بلکہ اس کا مقصد مصنوعی ذہانت کے ماڈل تیار کرنے اور ان سے کام لینے والوں کو سماجی تناظر میں مزید ذمہ دارانہ طریقے سے کام کرنے کے قابل بنانا ہے۔
اس حوالے سے ڈیجیٹل تقسیم کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ بہت سے لوگوں کو ڈیجیٹل آلات یا ذرائع تک رسائی نہیں۔ یہ یقینی بنانے کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر تعاون درکار ہے کہ تمام لوگوں کو ان ذرائع سے فائدہ پہنچے۔
ڈیجیٹل تقسیم ختم کرنا یونیسکو سفارشات کا ایک اہم حصہ ہے۔ ادارے کا ایک بنیادی تصور یہ ہے کہ سائنس اور سائنسی ترقی کے فوائد تمام لوگوں میں مساوی طور سے تقسیم ہونے چاہئیں۔ یہ بات مصنوعی ذہانت پر بھی صادق آتی ہے کیونکہ یہ انسانوں کو اپنے سماجی معاشی اور ترقیاتی اہداف کے حصول میں مدد دینے کے حوالے سے بہت بڑے امکانات کی حامل ہے۔
اسی لیے یہ بات اہم ہے کہ جب ہم مصنوعی ذہانت کے بااخلاق طور سے استعمال اور ترقی کی بات کرتے ہیں تو ہماری توجہ محض دنیا کے ایسے حصے پر نہیں ہوتی جو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ترقی یافتہ ہے اور جہاں کمپنیاں ان ذرائع سے بخوبی کام لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ہم جنوبی دنیا کے ممالک کے بارے میں بھی سوچتے ہیں جو ٹیکنالوجی میں ترقی کے حوالے سے مختلف مراحل میں ہیں اور ہم مصنوعی ذہانت میں ہونے والی عالمگیر ترقی پر بات چیت میں انہیں بھی شامل کرتے ہیں۔
ٹیکنالوجی ایک ایسا ذریعہ ہے جو انسانی مہارت اور صلاحیت کو مزید بہتر نتائج کے حصول کے قابل بنا سکتا ہے یا اسے ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چھاپہ خانے کی ایجاد سے اب تک یہ بات ثابت ہے۔ لہٰذا، ہمارے لیے یہ اہم ہے کہ بحیثیت صنعت ہمیں ٹیکنالوجی کے منفی اثرات پر قابو پانے کا اہتمام کرنا ہے اور ہمیں علم ہونا چاہیے کہ کمپیوٹر کیا کچھ کرسکتا ہے، ٹیکنالوجی کیا کچھ کرسکتی ہے اور اسے کیا نہیں کرنا چاہیے۔
کھل کر بات کی جائے تو سوشل میڈیا کے معاملے میں غالباً ہم نے ایسے مسائل سے نمٹنے کا پیشگی انتظام نہیں کیا تھا۔ اب مصنوعی ذہانت کے حوالے سے ہمارے پاس متحد ہو کر پیشگی اقدامات کا موقع ہے۔ ہمیں اس ٹیکنالوجی کے بے پایاں امکانات کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے لاحق منفی اثرات کو محدود رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔
یو این کے ڈیجیٹل ایجنڈے کا مقصد ہے کہ مصنوعی ذہانت سمیت ہر ٹیکنالوجی تمام انسانیت کے لیے یکساں فائدہ مند ہو۔ انسانیت کے لیے یہ کام بہتر طور سے انجام دینے میں یونیسکو کے شانہ بشانہ چلنا بہت اہم ہے۔