ڈنمارک کے پاس دس ہزار دماغ کیوں محفوظ ہیں؟

ڈنمارک کی سب سے بڑی یونیورسٹیوں میں شمار یونیورسٹی آف ساؤتھ ڈنمارک کے ایک ویران تہہ خانے میں ہزاروں کی تعداد میں سفید بالٹیاں شیلفوں میں قطار در قطار رکھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں بے رنگ گیس فارمل ڈیہائیڈ میں انسانی دماغ رکھے ہوئے ہیں۔ اور ان کی کل تعداد 9479 ہے۔
سنہ 1980 کی دہائی سے اب تک تقریباً چار دہائیوں کے دوران ملک بھر کے نفسیاتی اداروں میں مرنے والے مریضوں کے دماغوں کو پوسٹ مارٹم کے دوران نکال کر رکھ گیا ہے اور یہ دنیا میں کہیں بھی اس طرح کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔
بہر حال ان دماغوں کو مریضوں یا ان کے قریبی رشتہ داروں کی پیشگی رضامندی کے بغیر محفوظ کیا گیا جس کی وجہ سے ایک ایسی بحث کی ابتدا ہوئی جو اب طویل عرصے سے جاری ہے اور یہ پوچھا جا رہا ہے کہ انسانی اعضاء کی اتنی مقدار کا کیا کرنا ہے۔
بالآخر سنہ 1990 کی دہائی میں ڈنمارک کی اخلاقیات کی کونسل نے طے کیا کہ ٹشوز کو سائنسی تحقیق کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہےکچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ برسوں کے دوران اس ذخیرے نے ڈیمنشیا اور ڈپریشن سمیت کئی بیماریوں کے مطالعہ میں سہولت فراہم کی ہے۔ لیکن اس کا وجود اس بات کو بھی سامنے لاتا ہے کہ پہلے دماغی بیماری کو کس طرح بدنما داغ سمجھا جاتا تھا گزرے ہوئے زمانے میں مریضوں کے حقوق کی کمی تھی۔
 اور اس کے بعد اوڈینسی شہر میں موجود یونیورسٹی دماغی بینک کے طور پر کام کرتی ہے۔
تفصیلی دستاویزات سازی
اس ذخیرے کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سنہ 1945 سے اکٹھا کرنا شروع کیا گيا اور ڈنمارک کے مختلف حصوں میں نفسیاتی اداروں میں مرنے والے دماغی طور پر بیمار مریضوں کے دماغ نکالے جانے لگے۔
شروع میں ان انسانی دماغوں کو آرہاؤس کے ریسکوف سائیکاٹرک ہسپتال میں رکھا گیا تھا، جہاں انسٹی ٹیوٹ فار برین پیتھالوجی کام کرتی تھی۔
پوسٹ مارٹم کے بعد ڈاکٹر لاش کو قریبی قبرستانوں میں دفن کرنے سے پہلے اس کا معائنہ کرنے اور تفصیلی نوٹ بنانے کے لیے دماغ نکال لیا کرتے تھے۔
اوڈینسی میں دماغی ذخیرے کے موجودہ ڈائریکٹر اور پیتھالوجسٹ مارٹن وائرنفیلٹ نیلسن نے بی بی سی نیوز ورلڈ کو بتایا کہ 'ان تمام دماغوں کی بہت اچھی دستاویزی تفصیل تیار کی گئی ہیں۔'
ڈاکٹر نیلسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: 'ہم جانتے ہیں کہ مریض کون تھے، وہ کہاں پیدا ہوئے، اور وہ کب مرے۔ ہمارے پاس ان کی تشخیص اور نیوروپیتھولوجی (پوسٹ مارٹم) کی رپورٹس بھی ہیں۔'
بہت سے مریضوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ نفسیاتی ہسپتالوں میں گزارا، اس لیے پیتھالوجسٹ کی تفصیلی رپورٹس کے علاوہ، ہمارے پاس تقریباً آدھے مریضوں کی طبی تاریخیں بھی ہیں۔
نیلسن نے کہا کہ 'درحقیقت ہمارے پاس بہت زیادہ میٹا ڈیٹا ہے۔ ہم ڈاکٹروں کے اس وقت مریض پر کیے جانے والے بہت سے کاموں کو دستاویزی شکل دے سکتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ ان کا دماغ بھی ہمارے پاس موجود ہے۔'
دماغ کے تحفظ کا کام سنہ 1982 میں اس ختم ہوا جب آرہاؤس یونیورسٹی کو نئے احاطے میں منتقل ہونا تھا اور دماغ کی ذخیرہ اندوزی کے لیے کوئی بجٹ نہیں تھا۔ ایسے میں اس پروگرام کو ترک کرنے کی بھی باتیں ہونے لگیں اور ان تمام حیاتیاتی مواد کو تباہ کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ لیکن پھر اوڈینسی میں یونیورسٹی آف ساؤتھ ڈنمارک نے نکالے جانے والے دماغون کو اپنے یہاں رکھنے پر اتفاق کیا جسے ڈاکٹر نیلسن نے 'ریسکیو آپریشن' سے تعبیر کیا ہے۔

ولیم مارکویز
عہدہ,بی بی سی نیوز ورلڈ

Latest Notifications

Create Post