اشرف المخلوقات
(تحریر:راجہ شفیق کیانی ۔سپین)
پچھلے دنوں سپینش ٹو وی کا ایک پروگرام دیکھ رہا تھا، جس میں کسی کو کسی سے کوئی شکوہ ہو تو بھی اور اگر کسی وجہ سے شکر گزار ہونا ہو تو بھی اس پروگرام میں آ کر مطلوبہ بندے سے الاعلان اور دنیا کے سامنے محبت کا اظہار کریں یا گلہ شکوہ۔
اٹھارہ بیس سالہ نوجوان بہن بھائی سٹوڈیو میں اپنے ماں باپ کو بلوا کر سب کے سامنے کچھ کہنا چاہ رہے ہیں۔ دونوں بچوں کا موقف تھا کہ ہم بہت چھوٹے چھوٹے تھے جب ہمارے ماں باپ کچھ ایسے بچوں کو گھر لاتے، انہیں خوب لاڈ پیار کرتے اور ان کی دیکھ بھال کرتے جنہیں عدالت نے کسی بھی وجہ سے ان کے اپنے والدین سے علیحدہ کر دیا ہوتا تھا۔ سپین میں مختلف وجوہات کی بنا پر، اگر دیکھا جائے کہ والدین غیر ذمہ دار ہیں یا والدین بچے سنبھالنے کے قابل نہیں تو بچےلے لئے جاتےہیں ۔ کچھ والدین نشے کی وجہ سے، تو کچھ والدین بچوں پر تشدد کی وجہ سے ٖغرضیکہ عدالت انہیں بچوں کی سرپرستی کے قابل نہیں سمجھتی اور ایسے میں سٹوڈیو میں موجود بچوں کے والدین ان بچوں کو اپنے گھر لے آتے۔ اور جب تک بچوں کو کوئی اڈاپٹ نہ کر لیتا، یا انکا کوئی رشتہ دار، یا ادارہ ذمہ داری نہ لے لیتا یا کوئی بھی اور بندو بست نہ ہو جاتا۔ یہ لوگ ایک ماہ سے لے کر دو سال تک ایسے کئی بچوں کی کفالت اپنے خرچے اور خواہش سے کرتے رہے۔ اور شاید اب بھی کر رہے ہیں۔ سٹوڈیو میں موجود بچوں نے گفتگو تو لمبی تھی لیکن مختصر یہ کہ اپنے والدین کو خراج تحسسین پیش کرنے کے علاوہ یہ بھی کہا کہ ہمہیں احساس شرمندگی بھی ہے کہ شاید ہماری وجہ سے آپ بہت دفعہ ان بچوں کو صحیح توجہ نہ دے سکے ہوں۔ جس کےلئے ہم معذرت خواہ ہیں۔ لیکن ہمہیں آپ دونوں پرہمیشہ سے اس بات کا فخر رہا ہے کہ آپ بے لوث ہو کر انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔
بچوں کی باتیں سن کراور انکے والدین کی آنکھوں میں آنسو اور زبان پر یہ الفاظ سن کر میرے جسم کےرونگھٹے کھڑے ہو گئے۔ والدین کہہ رہے تھے کہ میرے بچوہمہیں معلوم ہےکہ ان بچوں کی وجہ سے ہم آپ دونوں کی پرورش اُس طرح سے نہ کر پائے جیسے آپکا حق تھا، لیکن ہم سمجھتے تھے کہ آپ کے والدین چونکہ پاس ہیں اور انکے والدین پاس نہیں تو لہذہ انہیں بہت زیادہ پیار اور توجہ کی ضرورت ہے۔
واقعی ایسے والدین معاشرے میں بہت اعلی مثال ہیں لیکن ان کے بچے بھی مثالی بچے ہیں۔ کیونکہ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہماری حق تلفی ہوئی۔ لیکن اعلی انسانیت کی نشانی ہے کہ انہوں نے اپنے ماں باپ کو سراہا اور دنیا کے سامنے ٍخراج پیش کیا۔
واقعہ بہت دلچسپ لگا اور سوچا آپ احباب سے شئیر کروں۔ دنیا شاید اسی لئے قائم ہے کیونکہ ابھی انسانیت باقی ہے۔ ابھی کچھ لوگ اشرف المخلوقات کہلانے کے مستحق ہیں۔